ادب اور لسانیات

ادب

لفظ ِ ادب اپنے معنی میں کثیر مفہوم رکھتا ہے۔ لسانِ عرب سے ماخوذ ہے قدیم و مجموعی طور پر شائستگی و پسندیدگی کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ اصطلاح میں ادب کو لسانیات کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے جس میں کئی علوم و زبانوں کا علم شامل ہے جیسے صرف و نحو، علم المعانی و کلام، شاعری، عروض، بدائع و صنائع ، نثری گفتگو و کلام نیز افسانوی ادب (ناول، ڈرامہ غیر افسانہ) بھی اس میں شامل ہیں۔ماہرین ِ ادبیات دور ِ جدید کے تناظر میں اس بات کے قائل ہیں کہ علم ادب کے توسل سے گفتگو و کلام کو آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اغلاط سے پاک کیا جائے،اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ  فن و نثر میں شائستگی و نرمی کے ساتھ اسے دلنشین بنا کر پیش کیا جائے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ  ادبی فن پارہ صالح قدروں کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ لوازمات ِ فن کو کامل کرتا ہے تاکہ قارئین کو جمالیاتی مسرت سے بھی ہمکنار کرے۔

علم ادب کی کئی اقسام ہیں اور تمام کو ہم اپنی تحقیقات و کلام کا تفصیلی حصہ بنائیں گے بیان کریں گے۔ادب کا لسان سے گہرا تعلق ہے کہ  زبان کے بغیر ادب معرضِ وجود میں نہیں آسکتا، اسے قدم قدم پر زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ زبان ادب سے قبل ہے اس لیے یہ بات سمجھ لیجیے  ادب کے ساتھ لسانیات بھی لازم ہے، اور یہاں اس مضمون ادب و لسانیات کے تحت ہم لسانیات پر بھی مفصل گفتگو کریں گے۔

لسانیات

زبانوں کی بابت مفصل و منظم علم کو لسانیات کہا جاتا ہے یہ علم اپنے معنی، ماہیت و تشکیل کے لحاظ سے وسعت رکھتا ہے ۔اجمالی طور پر اسے ایسی سائنس کہا جاسکتا ہے جو کسی بھی زباں کو ِ اس کی   ہئیت  اور بناوٹ کے اعتبار سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے ۔اس علم کے تحت اصوات، افکار و خیالات اورسماجی صورت حال و احوال شامل ہیں۔ خاص طور پر اس ضمن میں تین پہلوؤں کو خصوصی طور پر زیر ِ بحث لایا جاتا ہے.

  • زبان
  • سیاق و سباق
  • ماہیت ِ لسان

علم لسانیات  دیگر علوم سے کچھ امتیازات رکھتا ہے جیسے یہ علم  صرف انسانی زبان سے متعلق ہے یعنی لسانِ اشرف المخلوقات کو ہی زیرِ بحث لایا جاتا ہے  ۔ لسانیات  دیگر علوم کی بانسبت جدید علم ہونے کی وجہ سے آج بہت سے علوم کو سمجھنے کے لیے، عالمی اداروں، معاشرتی مسائل، سماجی دائرہ ِ کار کے مسائل کو سمجھنے کے لیے لسانیات ناگزیر ہوچکا ہے۔