تعلیم اور تعلیمی نظام

تعلیم اپنے عمومی معنیٰ میں سیکھنے کی ایک قسم ہے جس میں لوگوں کے علم ، ہنر اور عادات کو درس ، تربیت یا تحقیق کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ تعلیم سیکھنے کی سہولت فراہم کرنے کا عمل ، یا علم ، ہنر ، اقدار ، عقائد ، اور عادات کے حصول کا عمل ہے۔ ہمارے تعلیمی طریقوں میں کہانی سنانے ، مباحثہ کرنے ، تعلیم دینے ، تربیت اور ہدایت دینے والی تحقیق شامل ہیں۔تعلیم کی اہمیت اور ہر دور میں اس کی ضرورت سے کسی بھی صورت میں انکار ممکن نہیں۔ مگر یہ بات قابل ِ افسوس ہے کہ مروجہ تعلیمی نظام ،چاہے وہ دینی طبقات سے متعلقہ ہو یا دنیاوی طبقات سے متعلق ،کسی بھی طرح تعلیم کے معیار پر پورا نہیں کیا اترتا۔ مدارس دینیہ نے مخصوص انداز میں قدیم طرز پر وہی ایک ہی نصاب تشکیل دیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں دین کو سمجھنا تو دور  کی بات مسلک پسندی کو ہوا ملتی ہے نتیجتاً نہ ہی وہ تعلیم عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے اور نہ ہی معاشرتی فرائض کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیاوی اداروں کے معاملات میں وہی برطانیہ سے مستعار لیا نصاب برسوں سے پڑھایا جارہا ہے جس  کو پڑھ کر نوجوان نسل کا  مقصد حصول سند اور اچھی نوکری رہ گیا ہے، اور اسی بھاگ دوڑ میں آج ملک کی نوجوان نسل ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں اندھا دھند کوشاں ہے۔

اس شعبے کے مطالعہ سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم تعلیم اور تعلیمی نظام  کی بہتری کے لیے عملی طور پر اقدامات اٹھائیں ۔نوجوان نسل کو نوکری و غلامی جیسی سوچ سے آزادی کا شعور و آگاہی دینے کی کوشش کریں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد یعنی عقلی، فکری تعمیری کردار کی تکمیل کے لائحہ عمل طے کریں اور یہ نظام جو بگاڑ کا سبب بنتا جارہا ہے ،نوجوان نسل کی تعمیری سوچ کو زنگ آلود کر رہا  ہے،اس سے نجات کی کوشش کریں۔